
Unformatted text preview: عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی 1 تمام حوالوں کو مکمل لکھیں اور غلطیوں کی اصلح سرخ پین سے
کریں۔ بریکٹ کی غلطی کو Ignoreکردیں۔ باب اول:مغربی تصور جمالیات
:جماعت کا معنی و مفہوم
تمام علوم میں جماعت کی پرکشش ہونے کے ساتھ ساتھ پر فریب علم کے
طورپر بھی ظاہر ہوتا ہے۔اس کے باوجود مفکرین کے ہاں ہمیشہ جاذب نظر
رہ ا ہے۔ حسن و جمال کو باقاعدہ علم کی حیثیت تین صدیاں پہلے تک حاصل
ہوتی ہے۔ لیکن حسن وفن کے مسائل پر اظہار مفکرین سے تہذیبی رورے
آغاز سے یہی کر رہا تھا۔ فنون لطیفہ کی ترقی سے یہ موضوعات زیادہ زیر
بحث آنے لگے۔یونانیوں نے حسن و فن پر علمی انداز سے بحث تو کی لیکن
جمالیات کو الگ سے علم کا شعبہ نہیں قرار دیا۔اٹھارویں صدی میں ایک
مفکر بام گارئن نے پہلی مرتبہ حسن و جمال کے مسائل کو ایک الگ نام
رکھا۔ جو بعد میں اسی نام سے مروج ہو گیا۔ Aesthetica
:جمالیات
سے مشق ہے جس کے معنی ایسے معروض کے aisthesisایک یونانی لفظ
ہیں جس کا ادارک حواس کے ذریعے کیا جائے۔ اس لحاظ سے لغوی معنی۔
اس شے اور معروضی کے ہیں جس کا تعلق حسن سے ہو۔
"Coined the word Aesthetic for theانسائیکلوپیڈیا پر نانیکا میں ہے۔
)Science of perceptuel cognition''(1
کے نام سے Theory of tastیا Theory of beadlyاس سے پہلے اس کو
کا نام دیا۔ غرض Aestheticبھی جانا جاتا تھا۔ لیکن بام گارئن نے اس کو
علم جمالیات فلسفہ کی شاخ ہے جو حسن فطرت میں خوبصورتی اور فن
)سے متعلق ہے۔)1
کا ترجمہ کریں تو اس لفظ کو صحیح ترجمہ Aestheticاردو میں ہم
حسیات ہوتا ہے۔لیکن اردو عربی زبان میں اس کے لیے لفظ جمال اور اس
کی مشق بہت استعمال ہوتی ہے۔ کیونکہ اس علم کا موضوع حسن و جمال
میں تو اس لیے اردو میں اس کا ترجمہ جمالیات کیا گیاہے۔ علم الجمال بھی
کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے فلسفہ حسن ،علم الحسن کے الفاظ بھی استعمال عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی 2 جمال،جس کا
ہوتے ہیں عربی میں جمالیات میں اس کا مادہ ج۔م۔ل۔ہے اَل َ َ
مطلب حسن ہے) (٢المنجد ١٦٨حسن کا مادہ ہے ح۔س۔ن اسی سے حسنۃ
ن)نیکی کرنا ،کام کو اچھے طریقے سے کرنا(ہے۔
)خوبصورتی بنانا( اور ا َ َ
ح َ
س َ
،خداتعالی کا
سن،خوبصورتی جمال،اسی سے الحسنی)،اچھا کام
ا َ ْر ُ
ح ْ
ٰ
تعالی کے صفاتی نام کو کہا گیا ہے۔ اور احسان
دھیان(السماء ارحسنا اللہ
ٰ
بھی اسی مادہ سے نکل ہے۔ احسان ہوتا ہے کسی کام کو انتہائی خوبصورتی
سے کرنا ،بھلئی سے کرنا۔) (1المجند ٢٠٩
:جلل
اس طرح ایک صفت جلل کی بھی ہے۔یہ بھی جمالیات کا موضوع ہے۔عربی
ج ّ
ج َل ُل وجلالۃ،بری شان وال اس کی صفت
ل)رض) َ
میں اس کا مادہ ج۔م۔ل َ
ج لل َ
ج َل َ
ل)٢
لو َ
)جلیل ہے۔ اس کی جمع ۔اَجل،واجلۃ،و َ
( ٢المنجد،نظرثانی خلیل شرف ،مظاہری دارالشاعت ،کراچی ،اشاعت دہم(،
١٩٩٤،١٥٦
کا لفظ بول جاتا ہے اور یہ لفظ محدود Beautyانگلش میں حسن کے لیے
معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو کہ صرف جمال ہے۔ وسیع معنوں میں حسن
کے معنی ہیں جمال اور جلل دونوں شامل ہیں۔
کی تعریف یہ ہوتی ہے۔ Beautyکیمرج ڈکشنری میں
"Beauty, The quality of being pleasing, especially to look at ,
or someone or some. Thing that gives greate pleasure
''especially by being looked at.
اردو اور عربی میں حسن و جمال کے لیے الگ الگ حدود موجود ہیں حسن
وسیع ترقدر ہے۔ اور جمال نسبت محدود ،لفظ حسن میں جمال وجلل
دونوں شامل ہیں۔
حسن کے تحت ہم مندرجہ ذیل امور کو زیر بحث لتے ہیں۔ مثل جمال میں
نزاکت ،دل کشی ،دل ربانی ،نظر افروزی ،جلل ،عظمت ،وقار ،قوت،
شوخی ،وغیرہ۔ اس کے علہ صنفی صفت قبیح کو بھی علم جمالیات کے
تحت زیر بحث لیا جاتا ہے۔ مفکرین کے ہاں ہمیں جمال ،جلل ،قبیح کے
علوہ حسن مطلق حسن اضافی ،یا حسن بالذات ،یا حسن اضافی ،اس کے
علوہ قدرتی حسن ،اضافی حسن کی تقسیم بھی ہمیں ملتی ہے۔ حسن کی
مکمل تعریف پیش کرنا جس پر سب کا اتفاق ہو یا اکثریت اس پر اتفاق
رکھتی ہو نا ممکن ہے۔ عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی 3 مغربی مفکرین نے جمالیات پر بہت کام کیا ہے۔ لیکن جمالیات پر پوری
بصیرت حاصل کرنا ان کے ہاں نظر نہیں آنا۔
:فن
جمالیات کے تحت فلسفہ حسن کے علوہ ،فلسفہ فن یا علم فن بھی زیر
بحث لیا جاتا ہے۔
فن کا عربی میں مادہ ف۔ن۔ ہے۔
فن،فنلا الستی،مزین کرنا۔
ن۔
َن)معنی)پر شے کی ایک نوع اور مم ،مال ،ج ،اَفْنان و فَفْو ٌ
الف ل
نہیں اگرچہ ایک ) (Artعربی ،فارسی ،ترکی ،مین فن کے معنی خاص آرٹ
معنی یہ بھی ہیں۔
کے لیے زحرف ،یا صناعۃ کا لفظ Artعربی میں انگریزی لفظ کے لفظ
استعمال ہوا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ صناعۃ وغیرہ میں فنون مفیدہ کا مفہوم
کے معنی Artشامل ہے۔ اور فنون لطیفہ کا بھی۔غرض مسلم ادبیات میں
)میں فن کی بجائے لفظ صناعت)ھنر( استعمال ہوتا ہے۔ )1
بعض کتابوں میں لفظ فن جدید معنوں)آرٹ( میں بھی استعمال ہوا۔ مثل
،مجالس ،لنفائس ،مندقہ علی شیر،اورتحفہسامی،مصنفہ سام ،مرزا میں
ھنراور فن کے الفاظ عمارنگری،نقاشی ،تذھیب ،اور مصوری وغیرہ کے لیے
)استعمال ہوتے ہیں۔)2
فارسی میں آرٹ کے لیے ہنرکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
جمال وحسن کے لیے زیبائی شتاسی ،ہنر تجسیمی)نقاشی ،طراحی،تہذلیس،
گری ،عکاسی ،چاب( ہنر ھای۔)نمالیشی ،موسیقی ،ادبیات( فن کو عام طور
پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ فنون لطیفہ ،فنو ن مفیدہ۔
حسن کی طرح فن میں بھی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں فن کی بھی ایسی
تعریف جو جامع اور مانع ہو ملنا بہت مشکل ہے۔ مغربی مفکرین نے فن کے
نظر یات یہ بہت کام کیا ہے لیکن جامع تعریف نہیں پیش کر سکے۔
عام طور پر فن کی تعریف میں بنیادی بات یہ ہوتی ہے کہ اس فنون لطیفہ
میں انسان کے ساتھ دماغ ،اور دل تینوں مل کر کام کریں۔ بعض مفکرین
انسان کے لیے اپنے ہاتھ کا استعمال ضروری قرار دیا ہے۔
یہ ایک انشانی عمل ہے جس میں فنکار اپنے تخیل کو اظہار میں لتا ہے۔
کسی بھی شکل یا صورت ،مثل ،خطاطی ،مصوری ،وغیرہ کی صورت میں
اس کو فنون لطیفہ کہتے ہیں۔
ہ م دیکھتے ہیں کہ دنیا کی بڑی اقوام انہی تاریخ تین مختلف طریقوں سے
رقم کرتی ہیں کارناموں کے ذریعے ،الفاظ کے ذریعے فن کے ذریعے ،فن ان
)میں سب سے زیادہ قابل ،وثوق ذریعہ ہے۔) 1 عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی یونانی مفکرین 4 :یونانی مفکرین قبل از سقراط
سقراط سے قبل ان موضوعات پر جن مفکرین کے ہاں اشارے ملتے ہیں ان
میں
)) Xenophanus(1زینو فیس ) ٥٧٠ق م ٤٥٠-ق م
) Anaragorasانکساگورس ٤٠٠) ،ق م ٤٣٠-قم
) Gorgieas (2چور جیس۔
ان مفکرین نے شاعری اور فلسفے کے متعلق متضاد نظریات پیش کیے زینو
)فیس نے اخلقی نقطہ نظر سے سے شاعری یہ تنقید کی )3
اس کے برخلف انکساگورس کے مطابق شاعری اخلقی اور علمی سچائیوں
کو تمثیل ً پیش کرتی ہے۔
چورجیس کے مطابق المیہ سے مراد وہ شاعری ہے جس کا مقصد خط پہچانا
اور ترغیب دینا ہے ان کو جو فنون لطیفہ کے جارو سے متاثر ہو نے کے لیے
)تیار ہوں )1
ان مفکرین کے علوہ شاعروں اور تمثیل نگاروں نے بھی نظریہ حسن و فن
پر اپنے خیالت کا اظہار کیا ہے۔
) (Hesoid) (2اور ہیسوڈ ) (Homerمثل ہومر
کے مطابق شاعری اور فنون لطیفہ کا انحصار الہام وجدان پر ہے۔ چو
اکشابی نہیں بلکہ وھبی ہے۔ شاعری کے مقصد کے متعلق بھی ان کے ہاں
خیالت حلقے ہیں ہومر اس کا مقصد حظ امرینی ہے۔ اور ہیسوڈ دیوتاؤں کے
)پیغام کی تبلیغ اور ترسیل قرار دیتا ہے۔ )3
:یونانی ڈارمہ نگاروں
ان کے ہاں بھی اسمیں کچھ تنقیدی اشارے ملتے ہیں۔ ارستو منینس نے )-٤٤٨
)٣٨٥
نے اپنے ڈارمے ''مینڈک''میں مکالمے کی صورت میں پوری Aristophanes
)پے ڈیز ) ٤٧٠-٤٨٤ق م
٤٥٢-٥٢٥ق م( کے متضاد نظریات( ) (Aeschyesاور انکالس )(Euripides
)پیش کرتے ہیں )4
جہاں تک جمالیات کے دوسرے موضوع حسن کا تعلق ہے سقراط سے پہلے
یونانی ابتدائی طور پر خدا کی پرستش کرتے تھے حسن فطرت کو حسن
مطلق کا مظہ ر خیال کرتے تھے۔ حقیقی حسن کا عرفان ان کا حاصل زندگی
تھا۔ وہ جذبہ جو حسن حقیقی کے نظارے اور وصال کا اصل محرک ہے کی
اہ میت سے انکار نہیں کرتے تھے ۔ اسی جذبے کو اطلطورن ''ابروتن '' یا
''عشق'' کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے اقبال بھی اسی جذبے کے لیے کبھی عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی 5 عشق اور کبھی وجوان کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔
غرض عہ د قدیم میں حسن اور فن دونوں کو بڑی قابل قدر نظر سے دیکھا
جاتا تھا۔
نصیر احمد ناصر کے مطابق قدیم مغربی تصور جمالیات۔ ''میرے نزدیک ان کا
تصور حسن ان کے تصورفن سے ارفع تھا یہی وجہ ہے کہ ان کے تصور حسن
کو قریب قریب ہر عہد میں علمائے جمالیات کی کسی نہ کسی صورت میں
)تائید حاصل رہی ہے'' )1
مجنون گورکھ پوری کے مطابق :قدیم مغربی تصور جمالیات میں ''حسن
عمل سے علیحدہ حسن کی کوئی قدر ان کے ذہن میں نہیں تھی ۔ اس منزل
سے کچھ آگئے پڑھیں تو سیاسی دور آیا مذہب اخلقیات کا تعصب کم ہوا تو
حکومت اور قوم کو سدھارنے اور سنورانے کا سودا ہو ا اور ہر علم و فن کو
اسی تحسین وتہذیب کازریعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ افلطون کے
)زمانے کت یہی دور رہا۔'')1
)۔) ٣٩٩-٤٦٩ق م ): (Socratesسقراط
میں پیدا ہوا اور اسی شہر میں اس )(Athensیونانی فلسفی تھا۔ یہ ایتصنز
)نے سزا کے طور پر زہر کا پیالہ پی کر جان دے دی۔ )1
سقراط سے پہ لے تمام مفکرین کی توجہ طبیعاتی اور زیادہ ترمابعد الطبیعاتی
مسائل کی طرف تھی۔ سقراط وہ پہل عظیم فلسفی ہے جس نے فلسفہ کا
رخ عمرانی اور نفسیاتی مسائل کی طرف زیادہ کر دیا۔ اس حکیم فلسفی
کو اگر ایک فقرے میں بیان کرنا ہوا تو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔
)''انسان کی رائے کو عقلی صداقت پر ازسر نو استوار کرنا'')2
اس کے فلسفیانہ افکار پر غور کرنے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جس
چیز کو وہ مظاہر فطرت میں حسن سمجھتا ہے۔ اس کو وہ مظاہر اخلق
میں خیر اور انسانی قلب میں یہی شے نمودار ہو تو علم و حکمت کے نام
سے تعبیر کرتا ہے۔
میں سقراط ) (Sympasium) (4سیوزیم ) (Phaedo)(3افل طون نے فیڈو
کے حسن و فن کے متعلق نظریات کو مکالمات کی شکل میں پیش کیا ہے۔
افلطون کے خیال میں سقراط تناسب وھم آھنگی کو حسن کے لیے ناگزیر
عناصر ترکیبی خیال کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ
جس شخص نے حسین اشیاء کو ان کے صحیح نظم و ضبط اور ترتیب میں''
دیکھنا سیکھ یا بالخر اس کی نظریں حسن کے ایک حیرت انگیز عالم سے
دوچار ہوجائیں گئی''۔
:فن
فن کی ابتداء بلشبہ فطرت کی نقالی سے ہوئی۔ غرض سقراط بھی اسی
واقعیت کے تحت فن کو نقالی کہہ دیا۔ اور فن کو غیر مرتی کی نقالی کے عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی 6 )ناقابل سمجھتا ہے۔ )2
لیکن وہ غیر مرتی یا مابعد الطبیعاتی کی تشبیہ گری کے امکان کو جانتا تھا
اس لیے اس کا یہ قول ہے۔
وہ بت تراشی بہتر ہے جو قلب کے اندرونی فعال کی بہترین شبیہ گری کر''
سکتا ہو۔'' دلیل ہے کہ وہ نر صرف فن کی اس سلحیت کا شعور رکھتا تھا۔
بلکہ وہ فن کی حقیقت کو ''اظہار'' میں مظہر سمجھتا تھا۔ اس لحاظ سے
اگر یہ کہا جائے کہ سقراط ہی اظہار یت کے مکتب فکر کا بانی ہے توبے چاند
)ہوگا۔)1
سقراط فن کو نقل خیال کرتے ہوئے اسکا لحاصل اور باطل ہونا لزم خیال
کرتا ہے۔ سقراط کا نظریہ فن افادی نوعیت کا ہے۔ اس کے تصور افادیت میں
ماریت کا رنگ بھی پایا جا تا ہے۔ مگر سہ اس سے زیادہ تر روحانی اور
اخلقی افادہ مراد لیتا ہے۔
گابرٹ سقراط کے تصور جمالیات پر بات کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
"This man was wide-awake to the joys of intllectual lige,
keenly apprehensive, of new idea but at the some time an
easy prey to inteeactual allalkey. Insteed with these men
)socrates discussed the typeal sophistll proplems.(1
۔)٤٢٧۔ ٣٤٧ق م( یونانی فلسفی جس کا پیدائشی نام ) (Platoفلطون
ہے۔ ایتھننر میں پیدا ہوا اور اس شہر میں یہ ) (Aristocelyارسطو قلیس
)وفات پائی۔)2
افلطون وہ پہل فلسفی ہے جس نے حسن اور فن پر علمی انداز سے بحث
Republic phaedusکی۔ اس نے فن اور حسن کی بحث کو اپنی کتب
میں مکالمات کی صورت میں پیش کیا ہے۔ لیکن یہ نظریات symposium
بکھرے ہوئے انداز میں پیش کیے ہیں۔
افلطون حسن مطلق کا نظریہ پیش کرتا ہے(۔جو شخص حسن کا شیوائی(
ہے وہ حسیاتی حسن حسن مطلق کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ پہلے
اعلی اصول وجود میں آتے ہیں اس سے آگے کردار کے حسن کی
زندگی کے
ٰ
منزل سے جو عقل و فراست کی وساطت سے حاصل ہوتی ہے۔ حسن کا
شیدائی جب اس منزل سے بھی آگئے بڑھتا نکلتا ہے تو اسے حسن مطلق کا
جلوہ نظرآتاہے۔ )حسن مطلق ابدی ہے۔ماوراء ادراک سے آنکھوں سے نہیں
)دل کی آنکھ سے نظرآتا ہے۔( ) 1
حسن مطلق کا یہی نظریہ بعد میں افلطونس کے نظریہ کی بنیاد بنا وہاں
)سے یہ نظریہ عجمی تصوف میں در آیا۔)1
افلطون نے اپنے فلسفہ کی بنیاد کلیات پر رکھی اور تمام نظریات کو عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی 7 )کا لباس پہنایا ۔) (idealism) 2تصوریت
ان تصورات کو سقراط نفس انسانی کے محض خیالت سمجھتا تھا لیکن
افلطون کے نزدیک تصوریت کلیہ بھی موجو چیزیں ہیں۔ تصورات کا تصور
موجود سے زیادہ حقیقی ہے۔ افلطون کے مطابق حسن کی دو اقسام ہیں
)یا حقائق ثابتہ ) (Eidos) 3اول محسوسات حسن،دوم اعیان ثابتہ
افلطون کے نزدیک حسن ایک ہستی ہے۔ حسن پر جب غوروفکر کرتا ہے
اسے واحد ہی دیکھتا ہے لیکن اس امر کے باوجود وہ حسن کو نور کے مثل
)قرار دیتا چل جاتا ہے۔)4
تمثیلی فنون چونکہ ان حسیاتی اشیاء کی نقل ہوتے ہیں۔ اس لیے افلطون ان
فنون میں حقیقی حسن کا قائل نہیں ہے۔
معروضی طور پر حسن وحدت ،اور تناسب میں پوشیدہ ہے۔ افلطون اپنے
مکالمہ فیملی بس میں حسن ،نیکی اور تناسب کو ہم معنی قرار دیتا ہے۔ اور
صداقت کوان سب میں جاری و ساری سمجھتا ہے۔ افلطون اپنے نظریہ
حسن میں ریاضی کی حسین نستیوں کو پیش کرتا ہے۔
:فن
کے مسئلے کو بھی افلطون نے اپنے نظریہ تصورات کی روشنی میں حل
کرنے کی کوشیش کی ہے۔مجاز چونکہ حقیقت کی تمثیل ہے اور فن حقیقت
)کی بجائے مجازی صورتوں کی نقالی کرتا ہے۔ اس لیے وہ باطل ہے۔ )1
باطل تخلیق چونکہ غیر افادی اور سلبی قدروں کی حامل ہوتی ہے لہذا وہ
کبھی زندگی کا مقصود نہیں ہو سکتی۔
افلطون کے نظام فکر مبتی بھی اخلقیات ہی ہے جب وہ کہتا ہے کہ فن اس
لیے قابل احتزار ہے کہ یہ حقیقت سے تین درجے بعید ہے تو اس وقت اس کے
تحت الشعور میں اخلقی معیار ہی کام کر رہا تھا جو شے حقیقی نہیں وہ
باطل ہی ہو گی اور باطل شے کبھی خیر نہیں ہو سکتی۔ یہ افلطون کے
)تصور فن کا سلبی رخ ہے۔ )2
افلطون فن میں غرض وغایت ،افادیت اور نصب العین کے پائے جانے کو
لزمی قرار دیتا ہے۔ فن کا مقصد ہر لحاظ سے اخلقی اور تعلیمی ہونا
چاہیے۔ تاکہ لوگوں کو اچھا شہری بنانے کے لیے اس سے تہذیب واخلق کاکام
)لیا جا سکے۔ )3
فن کی قوت اور اسرونفوذ کا افلطون کا باخوبی معلوم تھا چنانچہ اسے اس
بات کا اعتراف ہے کہ فن کا تاثیر خط افرینی بنی نوح انسان کو کامرانی
حیات پر چلنے کے لیے عقل کی بہترین مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
افلطون کے نظریات میں ہمیں ایک ارتقاء ملتا ہے۔ قیدوس اور سپوزیم
وغیرہ میں وہ شاعری پر فنی اور معیاری انداز نظر اپنے خیالت کا اظہار کرتا
اعلی شاعروں کی قدر اہمیت اور وقعت کی مالک ہے۔
ہے کہ
ٰ عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی 8 اعلی تر
فیدوس میں وہ شعراء کو شاعر خطیب ،قانون دان ،اور اس سے
ٰ
لقب کے مستحق قرار دیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ حقیقت و صداقت کا ثبوت پیش
کر سکیں۔ شاعری کو القار اور وجدان کا طریقہ قرار دیتا ہے۔ اپنے مکالمے
سپوزیم میں وہ شاعر کو اس سے بھی بڑا درجہ دیتا ہے۔ یہاں وہ شاعر کو
)خالق اور شاعری کو تخلیق قار دیتا ہے۔ )1
مشہور تصنیف ''ریاست'' میں وہ اپنی عینی ریاست کے لیے ایک دستور پیش
کر رہا ہے۔ یہاں اسے شاعری اور دیگر فنون لطیفہ سے بحیثیت فنون لطیفہ
کے بحث نہیں بلکہ وہ انہیں تعلیم دینے اور اخلق کو بہتر بنانے کا ذریعہ
)سمجھتا ہے۔ )2
)افلطون فقط مخرب الخلق فن کی آزادی کے خلق ہے۔ )3
،نصیر احمد ناصے کے مطابق
یہ مشروط آزادی کا اصول طفری ہے لہذا آج ترقی یافتہ دور میں بھی ہر''
متمدن ملک میں تقریر تحریر پر پابندی عائد ہے۔ جیسے انگریزی زبان میں
)کہتے ہیں۔)Cenosr 4
دی پبلک کی دوسری فصل میں افلطون اس اصول کو اپنے انداز میں اس
طرح تشریح کی ہے۔''اگر صورت حال یہ ہے تو پھر ہماری نگہداشت ہمارے
شاعروں تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے۔ بلکہ ہمیں سر نوح کے فنکار پر نگاہ
رکھنی چاہیے ہمیں لزمی طور پر جاندار چیزوں کی تصویروں میں ،یا
عمارتوں میں اور اس کے علوہ ہر شے میں جیسے وہ تخلیق کرتے ہیں بدی یا
اخلقی کجروی ،یا کمینگی یا کوذوقی کو معروض اظہار میں لنے سے منع
کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس ہمیں ایسے فنکاروں کی طلب جستجو ہونی
چاہیے جو اپنے حسن بطع کی بدولت اس کائینات حسن و کمال کی نقالی
)کرنے کے قابل ہیں۔'' )1
افلطون کے نزدیک ''تسویہ '' اساسی جمالیات قدر ہے۔ اس لیے موسیقی
کی حلوت اور جازبیت کو اسی کامرہون منت سمجھتا ہے اور ) (2موسیقی
کے اثرونفوذ پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ موذونی وہم آھنگی روح کے خفیت مقامات تک وقار''
)پر عظمت طریقے سے رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ )3
پاکیزہ خوشیوں کو مقصد زندگی سمجھتا ہے۔ مجنون گور کو پوری لکھتے
ہیں''افلطون نے حکمت کی جو تعریف کی ہے وہ آج کل فنون لطیفہ کی ہو
رہی ہے۔ افلطون کے خیال میں حکمت و فلسفہ کا کام تحلیل و تجزیہ نہیں
بلکہ ترتیب و ترکیت ہے فلسفی ترکیب سے تجزیہ کی طرف جانا ہے۔ )(1
مختصر یہ کہ افلطون نے اصطلح بدل دی اور فلسفہ کے بھیس میں فنون
''لطیفہ کی قدر و قیمت کا اعتراف کر لیا۔
)٣٨٤۔ ٣٢٢ق م(): (Aristotle) (2ارسطو عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی 9 میں پیدا ) (Stagarsکے شہر استاجرہ ) (Thraceیونانی فلسفہ ہے۔ تھریس
میں فوت ہوا۔ یونانیوں میں ارسطو وہ پہل مفکر ہے جس ) (Chalcisہوا۔ اور
نے علوم کی باقائدہ تقیسم اور مختلف علوم پر مختلف کتابوں میں باقائدہ
علمی انداز میں بحث کی اس نے جمالیات پر کوئی باقائدہ تصنیف نہیں
نے نام سے ایک یادگار تصنیف )''(Poeticsچھوڑی البتہ اس نے ''الشعریات
چھوڑی ہے۔ اس میں اپنی بحث صرف فن شاعری اور اس میں بھی رزمیہ
تک محدود رکھی ہے۔ فنون ) (Comedyاور التہاجیہ ) (Tragedyالمیہ )(Epic
پر کوئی ) (Actingلطیفہ میں نہ تو اس نے موسیقی ،مصوری اور فن تمثیل
بحث کی اور نہ شاعری میں غزلیات اور دیگر اصناف شاعری کی طرف
متوجہ کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے جمالیات تصورات کو سائیفئفک
)اصولوں پر مدون کر کے قابل قدر کوشیش کی ہے۔ )1
ارسطو کے نظریات میں مابعد الطبعیاتی تصورات کی بجائے جمالیات میں
ٹھوس حقائق کے نفسیاتی تجزیہ سے واسطہ پڑتا ہے۔ فلسفہ حسن پر اس نے
)کوئی خاص نظریہ پیش نہیں کیا۔)2
:حسن
ارسطو افلطون کی طرح حسن اور خیر کو ایک ہی شے نہیں سمجھتا ۔اس
نے حسن کو موزونیت اور افادیت سے متمائر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس
نے حسن کو افادیت اور ضرورت سے بلند تر مقام دینے کی کوشش کی ہے۔
))3
اس نے ایک حقیقت یہ بھی بتائی ہے اس سے جو خوشی یا مسرت ملتی ہے
اس میں شہوت یا خواہش کا فقدان ہوتا ہے۔ جذبہ ستائش اور حسیاتی
خواہشات کے درمیان فرق دیکھاتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ حسن پر غوروفکر
کرتے وقت قتطعا ً ضروری نہیں کہ انسان کو لزما قبضہ تصرف کی خواہش
بھی لحق ہو جائے کیونکہ جمالیاتی جذیہ تو بے لوث ہوتا ہے۔ اس کے افکار
میں ایک اور پہلو بھی قابل عذر ہے وہ حسن کے مشاہدے میں عقل کا حصہ
ہے۔ حسن پر تدبر و فکر کرنا عقل کا فطری وظیفہ ہہے۔ اس نے حسن کے
) (Propovatiaتناسب ) (orderعناصر ترکیبی نظم و ضبط
سیاسات میں اس )(Determinea tenessاور تعین )(Difinitnessقطعیت
کو بھی اجرائے ترکیبی میں شامل کیا ہے۔ جو ) (Magnitudeنے ضخامت
افلطونی نظریہ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔
ارسطو حسن اور نکی )حسنۃ(کو اصل کے اعتبار سے ایک ہی شے سمجھتا
ہے لیکن دونوں لسانی اعتبار سے تفریق کرتے ہوئے حسن کو حرکی یا
ارتقائی نہیں سمجھتا اور نیکی )حسنۃ(کو حرکت و عمل سمجھتا ہے۔
کو حسن کی ایک اہم صفت سمجھتا ہے اس کے ) (Uglinessارسطو قب
مطابق ہ ر وہ شے سرور انگیز ہوتی ہے جو حسن و خوبی کے ساتھ نقل کی عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی 10 گئی ہو چاہے وہ شے بذات خود دوسروں کے لیے سروعر انگیز نہ بھی ہو۔
غرض ارسطو حسن کو افادہ اور خیر تک محدود نہیں رکھتا بلکہ وہ حسن کو
قائم بالذات مانتا ہے اور مختلف مقامات میں مختلف انداز میں تشریح کی
)ہے۔ )1
:فن
ارسطو افلطون کے بنیادی مسئلے ''فنو ن لطیفہ یقینا اصل کی نقل ہیں سے
اتفاق کرتا ہے۔ لیکن اس کے خیال میں یہ نقل جزئیات کی نہیں کل
خصوصیات کی ہوتی ہے مناع کو خاص حالتوں کی نسبت عموما ً کیا ہے سے
)غرض ہوتی ہے۔ اس لیے فنون لطیفہ تاریخ سے زیادہ قابل قدر ہیں۔ )2
ارسطو کے مطابق نقل اور تقلید انسان کی فطرت میں ہے اس سے ہمیں نہ
)صف لذت ملتی ہے بلکہ نقل و تقلید کی بدول علم کی ابتداء ہوتی ہے ۔)3
اس کے علوہ نقالی ہی ایسا ذریعہ جس سے ہم قدرت کی خامیاں دور کر
سکتے ہیں۔ فنون لطیفہ قدرت کی اصطلح کر دیتے ہیں اور اس کے بھدے پن
)اور بدنظمی کو بہتر انداز میں کر دیتے ہیں۔ )4
غرض ارسطو اور افلطون کے لفظ نقل کے معنوں میں زمین آسمان کا فرق
ہے۔ ارسطو نے فنون لطیفہ کو مذہب اور اخلق کی بے چا پابندیوں سے کافی
حد کت آزادی لئی ہے اور فن کو اخلقیات اور سیاسات کی دنیا سے باہر
نکل گیا ہے۔
اعلی ہے اپنی ندرت کے اعتبار
ارسطو کا یہ نظریہ فن فطرت سے افضل و
ٰ
)سے جدید معلوم ہوتا ہے۔)1
اس نے فنی تخلیق میں ،تحقیقی استعداد ذہانت اور تخیل کی ضرورت
واہمیت پر زور دے کر جمالیاتی تنقید میں نئے نظریات کی راہیں کھول دی
)ہیں۔)2
ارسطو الشعر میں نقلی شاعری پر افلطون کے عائد کردہ اعتراضات کے
جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات بھی پیش کرت اہے۔
اس میں شاعری کی تین قسمیں قرار دیتا ہے۔ المیہ۔طربیہ۔رزمیہ المیہ کے
متعلق اس نے مفصل بحث کی ہے۔ بااعتبار صفت اور بالحاظ کمیت المیہ کے
عناصر کا ذکر کیا ہے۔
اس کے جمالیات کا سارا سرمایہ اس کا مشہور نظر المیہ ہے افلطون کا
اعتراض کہ شاعری ان جبلتوں کی نشوونما کرتی ہے جو انسان کے حسن
فطرت کے لیے مظہر رساں ہیں۔ اس کا جواب المیہ کی تعریف کرتے ہوئے
ایک نفسیاتی انداز میں دیا ہے ''المیہ ایک سنجیدہ اور مکمل فعل کی نقالی
ہے۔''جو عظمت رکھتا ہے۔ وہ اس نفسیاتی کیفیت کو کتھارس ) (3کے لفظ
)سے تعبیر کیرتا ہے۔ کتھارس سے مراد غیرت اور تزکیہ نفس ہے۔ )1
ارسطوکے خیال کے مطابق عطیہ عبدالرحمن مقالہ پی ایچ ڈی 11 اشخاص کے اعمال ،ان کے مکافات حوادث ،مختلف اشخاص کے عروج
زوال ،غم و خوشی کی سچی تصویریں پیش کرکے خوف و ہراس ہمدردی
اور غیرت کا احساس پیدا کرے ،روح میں سنجیدگی ،بلند حوصلگی اور
)توازن پیدا کرنے کی ''المیہ'' سے بہتر کوئی صورت نہیں۔)2
المیہ کی بحث میں ہی ارسطو اپنے خیرالمور اووسطھا کے نظریہ کو نہیں
بھول۔ اس کے مطابق المیہ میں ایک قدرتی اور اوسط انسان کی زندگی کا
)مرقع پیش کرنا چاہیے۔)3
ثقافت یونانی کی تاریخ جمالیات ...
View
Full Document